ڈینگی بخار
ڈینگی نامی بخار 1950 میں پہلی بار فلپائن اور تھائی لینڈ پر منظرعام پر آیا
تھا اقوام متحدہ کے ادارے برائے صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق اگر ضروری اقدامات
نہ کیے گئے تو ڈینگی سے دنیا کی ڈھائی ارب آبادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے
ڈینگی بخار کی تبہاکاریاں
کے مطابق دنیا میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوتے ہیں
اور سالانہ تقریبا بیس ہزار افراد اس بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے
ہیں دنیا بھر میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے تقریبا 38 اقسام کے مچھر پائے جاتے
ہیں لیکن ان میں سے ایک قسم کا مچھر پاکستان میں موجود ہے اور اب پاکستان میں
بھی تیزی سے ڈینگی وائرس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہوتا ہے اور یہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں ازخود منتقل نہیں ہوتا بلکہ جب
ڈینگی بخار میں مبتلا ایک مریض کو ایک ویکٹر مچھر سے کاٹا جاتا ہے تو وہ مچھر
بھی متاثر ہو جاتا ہے ، اور پھر وہ دوسرے لوگوں کو کاٹ کر اس وائرس کو پھیلانے
کا سبب بنتا ہے اور اسکی کم سے کم مدت 3 سے 7 دن اور زیادہ سے زیادہ 3 سے 14 دن
کے درمیان ہوتی ہے۔
اثر انداز ہوتا ہے جس شخص کو ڈینگی وائرس لاحق ہو جاتا ہے اسکی خون کی نالیوں
میں سوراخ ہوتے ہیں اور ان سے پلیٹ لیٹس باہر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر یہ
پلیٹ لیٹس دن بدن کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ان نالیوں سے
پانی بھی نکلتا ہے جس کی وجہ سے پانی کی کمی ہو جاتی ہے اور جسم ڈی ہائیڈریشن
کی طرف چلا جاتا ہے جو کہ انتہائی خطر ناک ثابت ہوتا ہے ۔
ڈینگی بخار کی علامات:
بھی ہو سکتا ہے اور کسی شخص میں تیز بخار یعنی 104 فارن ہائیٹ تک بھی ہوسکتا
ہے۔
ہوتے ہیں۔
آسکتا ہے جوکہ انتہائی خطرناک ہے۔
www.healthfullfit.com |
ڈینگی بخار کا علاج:
ڈینگی بخار کی تشخیص ایک بلڈ ٹیسٹ CBC اور Dengue Ns1 کے ذریعے کی جاتی ہے لیکن
ابھی تک ڈینگی بخار کی کوئی ویکسین تیار نہیں ہو سکی اور نہ ہی اس کا کوئی خاص
علاج متعارف کروایا گیا ہے لہذا چونکہ ڈینگی بخار ہماری قوت مدافعت اور پلیٹ
لیٹس پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال اور ہلکی
پھلکی ایسی غذاؤں کا بھی استعمال کیا جائے جو کہ قوت مدافعت کو بڑھانے میں
مددگار ثابت ہو اور حالت زیادہ تشویشناک ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کیا
جائے۔ :